توحید
پہلا باب ؛ توحید اور اس کا نظریۂ کائنات
توحید کے اصطلاحی معنی;
قرآن کی تعلیمات کے مطابق توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدائے واحد و لاشریک نے کائنات کو پیدا کیا، اسی نے انسانوں کو پیدا کیا اور تدبیر خلق، گردش قوانین عالم اور زندگی بشر میں جاری قوانین کی گردش اسی کے اختیار میں ہے۔
توحید یعنی اس بات پر یقین کہ عالم خلقت اور کائنات میں کہکشانوں، بادلوں، آسمانی گہرائیوں، بے شمار کرات اور لاکھوں شمسی منظوموں سے لیکر کسی پیکر اور جسم کے چھوٹے چھوٹے خلیوں اور باریک کیمیائی ترکیب تک میں پایا جانے والا عجیب وغریب، حیرت انگیز اور انتہائی پیچیدہ تناسب کہ جو اتنا عظیم، متنوع اور پیچیدہ ہے کہ اس سے ہزاروں قانون اور اصول نکالے گئے ہیں، اس لئے کہ اگر نظم ایسا ہو کہ جس کے برعکس ہونا ناممکن ہو تو اس سے آفرینش کے ایسے قوانین کا استنباط ہوتا ہے کہ جس کے خلاف ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ یہ سب کسی فکر، تدبیر اور قدرت کا کرشمہ ہے اور اتفاقیہ وجود میں نہیں آیا ہے۔ یہ ایسا عقیدہ ہے کہ ہر عقل سلیم، ہر عاقل اور صاحب فکر انسان جو فکر میں جلد بازی سے کام نہ لیتا ہو، فیصلہ کرنے میں تحمل کا دامن نہ چھوڑتا ہو اور معاملات میں پہلے سے ہی کوئی فیصلہ نہ کر لیتا ہو، اس کو قبول کرتا ہے۔ یہ فکر، تدبیر، تفکر ، عظیم و بیکراں اور ناقابل بیان قدرت جو یہ پیچیدہ اور حیرت انگیز تناسب وجود میں لائی ہے، انسان کا بنایا ہوا کوئی بت، خدائی کا دعویدار کوئی محدود انسان یا کوئی اساطیری اور علامتی سمبل اور علامت نہیں ہو سکتی؛ بلکہ ذات واحد و یکتا و لایزال ہے جس کو ادیان "خدا" کہتے ہیں اور اس کو اس کے آثار سے پہچانتے ہیں۔ بنابریں یہ قدرت، یہ ارادہ اور عظیم و پیچیدہ منظومے کا ناظم اور بے نظیر اور ناقابل توصیف خالق وہ معمولی چیزیں نہیں ہوسکتیں جو انسان کے اختیار میں ہیں، یا وہ خود یا اس کے جیسا کوئی اور انہیں بناتا ہے، یا اس کے جیسی کوئی مخلوق جو ختم ہوجانے والی ہے (اس کی خالق) نہیں ہوسکتی بلکہ "ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر سبحان اللہ عما یشرکون"
توحید یعنی خدا کے علاوہ ہر ایک اور ہر چیز کی بندگی، اطاعت اور پرستش سے رہائی، یعنی بشری نظاموں کے تسلط کی زنجیروں کا کھل جانا، یعنی مادی و شیطانی طاقتوں کے خوف کے طلسم کا ٹوٹ جانا، یعنی ان بے نہایت طاقتوں پر بھروسہ کرنا جو خداوند عالم نے انسان کے باطن میں قرار دی ہیں اور ان سے استفادے کو ایسا فریضہ قرار دیا ہے جس کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے۔ توحید یعنی ستمگروں اور مستکبرین پر مستضعفین کے قیام، مجاہدت اور استقامت کی صورت میں، ان کی کامیابی کے وعدہ الہی پر یقین، یعنی رحمت خدا پر بھروسہ کرنا اور ناکامی کے احتمال سے نہ ڈرنا، یعنی ان تمام زحمتوں اور خطرات کا سامنا کرنا جو وعدہ الہی کی تکمیل کی راہ میں انسانوں کو درپیش ہوتے ہیں، یعنی راستے کی مشکلات کو خدا پر چھوڑدینا اور حتمی اور آخری کامیابی کی امید رکھنا، یعنی مجاہدت میں اعلی ہدف پر جو ہر قسم کے ظلم و ستم، امتیاز و تفریق، جہالت اور شرک سے معاشرے کی نجات ہے، نظر رکھنا اور راستے میں ہونے والی ذاتی ناکامیوں کا اجر، خدا سے چاہنا اور مختصر یہ کہ توحید یعنی خود کو قدرت و حکمت الہی کے بحر بیکران و لایزال سے متصل پانا، اعلی ہدف کی جانب کسی تشویش کے بغیر، امید کے ساتھ آگے بڑھنا۔ وہ تمام عزت و بلندی جس کا وعدہ کیا گيا ہے، توحید کے اسی عمیق اور روشن ادراک اور ایمان کے سائے میں حاصل ہوگی۔ توحید کے صحیح فہم، اور اس کی عقیدتی اور عملی پابندی کے بغیر مسلمانوں کے بارے میں کوئی بھی وعدہ الہی عملی نہیں ہوگا۔
قرآن کی تعلیمات کے مطابق توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدائے واحد و لاشریک نے کائنات کو پیدا کیا، اسی نے انسانوں کو پیدا کیا اور تدبیر خلق، گردش قوانین عالم اور زندگی بشر میں جاری قوانین کی گردش اسی کے اختیار میں ہے۔
توحید یعنی اس بات پر یقین کہ عالم خلقت اور کائنات میں کہکشانوں، بادلوں، آسمانی گہرائیوں، بے شمار کرات اور لاکھوں شمسی منظوموں سے لیکر کسی پیکر اور جسم کے چھوٹے چھوٹے خلیوں اور باریک کیمیائی ترکیب تک میں پایا جانے والا عجیب وغریب، حیرت انگیز اور انتہائی پیچیدہ تناسب کہ جو اتنا عظیم، متنوع اور پیچیدہ ہے کہ اس سے ہزاروں قانون اور اصول نکالے گئے ہیں، اس لئے کہ اگر نظم ایسا ہو کہ جس کے برعکس ہونا ناممکن ہو تو اس سے آفرینش کے ایسے قوانین کا استنباط ہوتا ہے کہ جس کے خلاف ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ یہ سب کسی فکر، تدبیر اور قدرت کا کرشمہ ہے اور اتفاقیہ وجود میں نہیں آیا ہے۔ یہ ایسا عقیدہ ہے کہ ہر عقل سلیم، ہر عاقل اور صاحب فکر انسان جو فکر میں جلد بازی سے کام نہ لیتا ہو، فیصلہ کرنے میں تحمل کا دامن نہ چھوڑتا ہو اور معاملات میں پہلے سے ہی کوئی فیصلہ نہ کر لیتا ہو، اس کو قبول کرتا ہے۔ یہ فکر، تدبیر، تفکر ، عظیم و بیکراں اور ناقابل بیان قدرت جو یہ پیچیدہ اور حیرت انگیز تناسب وجود میں لائی ہے، انسان کا بنایا ہوا کوئی بت، خدائی کا دعویدار کوئی محدود انسان یا کوئی اساطیری اور علامتی سمبل اور علامت نہیں ہو سکتی؛ بلکہ ذات واحد و یکتا و لایزال ہے جس کو ادیان "خدا" کہتے ہیں اور اس کو اس کے آثار سے پہچانتے ہیں۔ بنابریں یہ قدرت، یہ ارادہ اور عظیم و پیچیدہ منظومے کا ناظم اور بے نظیر اور ناقابل توصیف خالق وہ معمولی چیزیں نہیں ہوسکتیں جو انسان کے اختیار میں ہیں، یا وہ خود یا اس کے جیسا کوئی اور انہیں بناتا ہے، یا اس کے جیسی کوئی مخلوق جو ختم ہوجانے والی ہے (اس کی خالق) نہیں ہوسکتی بلکہ "ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر سبحان اللہ عما یشرکون"
توحید یعنی خدا کے علاوہ ہر ایک اور ہر چیز کی بندگی، اطاعت اور پرستش سے رہائی، یعنی بشری نظاموں کے تسلط کی زنجیروں کا کھل جانا، یعنی مادی و شیطانی طاقتوں کے خوف کے طلسم کا ٹوٹ جانا، یعنی ان بے نہایت طاقتوں پر بھروسہ کرنا جو خداوند عالم نے انسان کے باطن میں قرار دی ہیں اور ان سے استفادے کو ایسا فریضہ قرار دیا ہے جس کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے۔ توحید یعنی ستمگروں اور مستکبرین پر مستضعفین کے قیام، مجاہدت اور استقامت کی صورت میں، ان کی کامیابی کے وعدہ الہی پر یقین، یعنی رحمت خدا پر بھروسہ کرنا اور ناکامی کے احتمال سے نہ ڈرنا، یعنی ان تمام زحمتوں اور خطرات کا سامنا کرنا جو وعدہ الہی کی تکمیل کی راہ میں انسانوں کو درپیش ہوتے ہیں، یعنی راستے کی مشکلات کو خدا پر چھوڑدینا اور حتمی اور آخری کامیابی کی امید رکھنا، یعنی مجاہدت میں اعلی ہدف پر جو ہر قسم کے ظلم و ستم، امتیاز و تفریق، جہالت اور شرک سے معاشرے کی نجات ہے، نظر رکھنا اور راستے میں ہونے والی ذاتی ناکامیوں کا اجر، خدا سے چاہنا اور مختصر یہ کہ توحید یعنی خود کو قدرت و حکمت الہی کے بحر بیکران و لایزال سے متصل پانا، اعلی ہدف کی جانب کسی تشویش کے بغیر، امید کے ساتھ آگے بڑھنا۔ وہ تمام عزت و بلندی جس کا وعدہ کیا گيا ہے، توحید کے اسی عمیق اور روشن ادراک اور ایمان کے سائے میں حاصل ہوگی۔ توحید کے صحیح فہم، اور اس کی عقیدتی اور عملی پابندی کے بغیر مسلمانوں کے بارے میں کوئی بھی وعدہ الہی عملی نہیں ہوگا۔
Mohammad jawad Rouhani
خدا کے وجود کی دلیل خدا کے وجود کی دلیل خود شناسی جو خدا کی زیادہ معرفت حاصل کرنے سے عب
EmoticonEmoticon