خدا کے وجود کی دلیل































خدا کے وجود کی دلیل
خود شناسی جو خدا کی زیادہ معرفت حاصل کرنے سے عبارت ہے اس کے بنیادی ستونوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے نفس، اپنی کمزوری، اپنے عشق اور اپنی قلبی احتیاج سے واقف ہو۔ انسان کے دل کے اندر ایک چیز ہے جو خود خدا کے وجود کی دلیل ہے۔ وہ چیز کیا ہے؟ وہ جستجوئے خدا کی جذبہ ہے، عشق خدا ہے، جاذبیت خدا ہے جو ہمارے دل کے اندر ہے۔ مادہ پرستوں کے دل میں بھی ہے مگر غافل انسان یہ سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کیا ہے۔
یہ جو انسان دلی وابستگیوں، محبتوں اور کششوں کے پیچھے دوڑتا ہے، اس دوڑنے کی وجہ اور اس قلبی احساس کی جڑ وہی جذبہ الہی ہے لیکن غافل اور تاریکیوں میں ڈوبا انسان وہ ضروری قلبی روشنی نہیں رکھتا اس لئے نہ اس کو پہچانتا ہے اور نہ ہی اس کو سمجھ پاتا ہے۔
خدا شناسی میں عقل کا مقام
توحید صرف یہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ خدا ہے اور وہ بھی ایک ہے دو نہیں ہے۔ یہ توحید کی ظاہری شکل ہے۔ باطن توحید بحر بیکراں ہے جس میں اولیائے خدا غرق ہوتے ہیں۔ وادی توحید بہت عظیم ہے اور اس عظیم وادی میں مومنین، مسلمین اور موحدین سے کہا گیا ہے کہ فکر، تدبر اور تعقل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ واقعی تعقل اور تدبر ہی ہے جو انسان کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ البتہ مختلف مراحل میں عقل نور وحی، نور معرفت اور اولیائے خدا کی تعلیمات سے آراستہ ہوتی ہے؛ لیکن سرانجام جو چیز آگے بڑھتی ہے وہ عقل ہی ہے۔ عقل کے بغیر کہیں بھی نہیں پہنچا جا سکتا۔
اسلام کا بنیادی ستون
آج مسلمانوں اور مسلم اقوام پر جو بھی مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں وہ توحید کے زیر سایہ زندگی نہ گزارنے کا نتیجہ ہیں۔ توحید صرف ایک ذہنی چیز نہیں ہے۔ توحید ایک حقیقی امر، زندگی کا ایک دستورالعمل اورایک نظام ہے۔ توحید مسلمانوں کو بتاتی ہے کہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ کس طرح رہیں، سماجی نظام میں کس طرح رہیں اور کس طرح زندگی گزاریں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ توحید پر اعتقاد کا تعلق موت کے بعد سے ہے جبکہ توحید پر اعتقاد اس عالم اور زندگی کی تعمیر کرتا ہے۔
مسلمان توحید اور عبودیت کی طرف جتنا بڑھیں گے ، ان کے لئے خدا کے دشمنوں اور طاغوتوں کا شر اتنا ہی کم ہوگا۔ دوسروں کی بندگی اور غلامی کے ساتھ خدا کی بندگی نہیں ہو سکتی۔
اسلامی نظریہ کائنات میں توحید
دنیا کے بارے میں ہر مکتب کی ایک خاص آئیڈیالوجی، ایک خاص نظریہ اور ایک خاص ادراک ہوتا ہے۔ دنیا کے تعلق سے یہ خاص ادراک اور دنیا کے بارے میں یہ مخصوص نقطۂ نگاہ، نظریۂ کائنات ( آئیڈیالوجی) ہے۔
توحید بھی اسلامی نظریۂ کائنات کا حصہ ہے۔ توحید اسلام کی زندگی ساز آئیڈیالوجی کا جز بھی ہے۔ توحید تمام اسلامی ضوابط کے لئے جسم میں روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پیکر اور جسم کے تمام اعضا میں نرم و لطیف ہوا کی طرح حرکت کرتی ہے اور اسی کا نام ہے اسلام ہے۔ اس پیکر اور جسم میں صاف اور پاکیزہ خون کی طرح ہے جس کا نام دین اور اسلام ہے۔ اسلام کی تمام باریک ترین رگوں میں ( توحید موجود ہے) ، حتی کوئی بھی اسلامی حکم ایسا نہیں مل سکتا جس میں توحید کا رنگ و بو اور نشانی نہ ہو۔
اسلام کا نظریہ ہے کہ اس مجموعے میں جس کا نام دنیا ہے، ہر جگہ، اوپر سے لیکر نیچے تک، ناچیز اور حقیر مخلوقات سے لیکر بڑی اور عظیم مخلوقات تک، پست ترین جاندار یا بے جان سے لیکر باشرف ترین، طاقتور ترین اور عقل و خرد کی مالک مخلوق یعنی انسان تک، اس دنیا میں ہرجگہ، سب کے سب، ایک عظیم طاقت کے بندے، اس کے غلام، اس کے پیدا کردہ اور اسی سے وابستہ ہیں۔ اس ظاہر سے ماورا جسے انسان کی نگاہیں دیکھتی ہیں، اس سے حد سے ماورا جہاں تک تجرباتی علم و دانش ( سائنس) کی تیز بیں نگاہیں پہنچ سکتی ہیں، ان تمام چیزوں سے ماورا جو قابل لمس اور قابل حس ہیں ان سب کے ماورا ایک حقیقت ہے جو تمام حقیقتوں سے بالاتر، اعلی تر، باشرف تر اور باعزت تر ہے اور تمام مخلوقات عالم اسی کے دست قدرت کے بنائے ہوئے، تیار کردہ اور اسی کے خلق کردہ ہیں۔ اس بالاتر طاقت کو ایک نام دیا گيا ہے۔ اس کا نام خدا ہے۔ اس کا نام اللہ ہے۔ بنابریں دنیا ایک حقیقت ہے جو خود سے قائم نہیں ہے۔ جو خود ہی خود کو وجود میں نہیں لائی ہے، اپنے باطن اور اندر سے ابھر کے سامنے نہیں آئی ہے بلکہ ان گوناگوں مخلوقات کو جو سائنس کی ترقی و پیشرفت کے ساتھ زیادہ نمایاں ہوکے سامنے آرہی ہیں، ایک لا متناہی طاقت نے خلق کیا ہے اور وجود بخشا ہے۔ اس کی حیات کسی سے نہیں لی گئی ہے ، اس کا علم کسی جگہ سے اخذ اور کسب نہیں کیا گیا ہے۔ پورے عالم کا اختیار اس کے پاس ہے۔ ذرات عالم اس کے سامنے کس طرح ہیں؟ کیا ذرات جب خلق کئے گئے اور بنائے گئے تو اس بچے کی طرح جو اپنی ماں سے الگ ہوتا ہے، اس سے الگ ہوئے؟ نہیں بلکہ یہ ہر لمحہ باقی رہنے کے لئے اس کے محتاج ہیں، اس کی قدرت کے محتاج ہیں اور اس کے ارادے کے محتاج ہیں۔ سب اس کے بندے ہیں۔ تمام مخلوقات اسی کے بندے، اسی کے غلام ، اسی کے پیدا کردہ اور اسی کی مخلوق ہیں۔ سب پر اس کو تصرف حاصل ہے۔ سب کو اس نے خاص نظم کے ساتھ خلق کیا ہے۔ سب کو اس نے منظم اور دقیق قوانین اور طریقوں سے وجود بخشا ہے۔ ان قوانین کا آج سائنس انکشاف کر رہی ہے۔
اسلامی نظریۂ کائنات میں توحید یعنی دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا اور بنانے والا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اس دنیا کی ایک پاک و لطیف روح ہے۔ دنیا کا کوئی خلق کرنے والا ہے اور تمام اجزائے عالم اس کے بندے، اس کے غلام اور تمام مخلوقات اس خدا اور اس خالق کے اختیار میں ہیں۔



Previous
Next Post »